-->

امام ابو داؤد اور مرسل روایت کا حکم

 

﴿امام ابو داودؒ اور مرسل روایت کا حکم﴾

 

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث السجستانیؒ (المتوفی 275ھ) اپنی سنن کے حوالے سے اپنے اصول الحدیث کے رسالے میں لکھتے ہیں:

المرسل والاحتجاج به

وأما ‌المراسيل فقد كان يحتج بها العلماء فيما مضى مثل سفيان الثوري ومالك بن أنس والأوزاعي حتى جاء الشافعي فتكلم فيها وتابعه على ذلك أحمد بن حنبل وغيره رضوان الله عليهم

فإذا لم يكن مسند غير المراسيل ولم يوجد المسند فالمرسل يحتج به وليس هو مثل المتصل في القوة

 

مرسل اور اس سے احتجاج:

اور جہاں تک مراسیل کا تعلق ہے تو پہلے زمانے میں علماء اس سے احتجاج کرتے تھے مثلا: امام سفیان الثوریؒ، امام مالک بن انسؒ، اور امام اوزاعیؒ۔ یہاں تک کہ امام شافعیؒ آئے تو انہوں نے اس میں کلام کیا اور پھر اس میں امام احمد بن حنبلؒ وغیرہ نے انکی پیروی کی۔ اللہ ان سب سے راضی ہو۔ (آمین)

اگر مراسیل کے علاوہ کوئی مسند نہ ہو اور کوئی مسند نہ مل سکے تو  مرسل سے احتجاج کیا جاسکتا ہے اور وہ قوت میں متصل کے مثل نہیں ہوگی۔

(رسالة أبي داود إلى أهل مكة: صفحہ 24)

 

اسی طرح امام داؤد دوسرے مقام پہ مرسل روایت کا حکم بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

قد يوجد المرسل والمدلس عند عدم وجود الصحاح

وإن من الأحاديث في كتابي السنن ما ليس بمتصل وهو مرسل ومدلس وهو إذا لم توجد الصحاح عند عامة أهل الحديث على معنى أنه متصل

 

صحیح احادیث کی عدم وجود میں مرسل اور مدلس پائی جاسکتی ہے:

اور میری کتاب السنن میں بعض احادیث ایسی ہیں جو متصل نہیں ہیں بلکہ وہ مرسل و مدلس ہیں اور اگر آئمہ اہل حدیث کے پاس صحیح احادیث موجود نہ ہوں تو یہ متصل کے معنی پہ ہیں۔

(رسالة أبي داود إلى أهل مكة: صفحہ 30)

 

امام ابو داؤدؒ مزيد لکھتے ہیں:

حكم ‌المراسيل

وما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم من ‌المراسيل منها ما لايصح ومنها ما هو مسند عن غيره وهو متصل صحيح

 

مراسیل کا حکم:

اور جو کچھ نبی ﷺ سے مراسیل میں روایت کیا گیا ہے ان میں سے کچھ بھی صحیح نہیں ہے مگر اس میں جو کچھ کسی اور سے مسند روایت کیا گیا ہے تو وہ متصل اور صحیح ہے۔

(رسالة أبي داود إلى أهل مكة: صفحہ 32)

 

معلوم ہوا کہ امام ابو داؤدؒ کے مطابق امام شافعیؒ سے قبل اکثر آئمہ کرام مرسل کو قبول کرلیتے تھے مگر جب امام شافعیؒ آئے اور انہوں نے شرائط و قوائد وضع کیے تو آئمہ کرام نے انہی کی پیروی کرتے ہوئے انہی اصول و قوائد پہ مراسل کو قبول کرنے سے گریز کیا، یہاں تک پھر مرسل ضعیف کی ایک باقائدہ قسم شمار ہونے لگی۔ یہاں امام ابو داؤدؒ نے اپنا اصول بھی مرسل روایت کو لیکر واضع کردیا کہ صرف وہی مرسل صحیح مانی جائے گی جو کسی اور سند سے متصل ہوجائے۔ ورنہ فی نفسی مرسل انکے نزدیک ضعیف و مردود ہے۔

 

 مگر وہ یہ بھی رخصت دیتے ہیں کہ جب کسی باب میں آپ کے پاس کوئی مسند روایت موجود نہ ہو اور آپ کو تلاش کرنے کی جدوجہد پہ بھی نہ مل سکے تو وہاں مرسل سے احتجاج کیا جاسکتا ہے کیونکہ متصل کے عدم وجود میں مرسل و مدلس سے احتجاج کیا جاسکتا ہے کیونکہ مسند کا عدم وجود مرسل کو متصل کا معنی دے دیتا ہے۔

 

 اور انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ آپ جب بھی مرسل کو قابل احتجاج بنائیں تو وہ مرسل روایت کمزور ہی رہے گی، اسکی قوت متصل کے برابر ہرگز نہیں ہوسکتی، اور یہ بات اہم ہے کہ لوگ مرسلات کو قبول تو کرتے ہیں مگر پھر مرسل و متصل کے درمیان قوت کے فرق کو بلکل نظر انداز کردیتے ہیں۔

 

آخری بات یہ بھی نوٹ کرنے والی ہے کہ یہاں امام ابو داؤدؒ کے مطابق متاخر امام نے متقدم آئمہ کے منہج کے الٹ اصول و قوائد وضع کیے ہیں اور پھر بعد کے آئمہ نے متقدم آئمہ کو ترک کرکے متاخر امام کے اصول و قوائد کو قبول کیا ہے۔ یہ صریح نص ہے کہ متاخر آئمہ کرام بھی اصول و قوائد کو وضع کرنے میں متقدم آئمہ سے برتری لے جاسکتے ہیں، اور انہیں اس سے چیز سے روکنے کی کوئی شرعی حد وجود نہیں رکھتی۔ لہزا جو جہلاء ایسی چیزوں کو بنیاد بنا کر آئمہ کرام پہ بکواسات کرتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ اللہ سے ڈریں۔ والسلام

تحریر: شہزاد احمد آرائیں

امام ابو داؤدؒ کے کلام پہ امام سخاویؒ کا تبصرہ اور اس تبصرے پہ ہماری شرح یہاں ملاحظہ کریں۔