-->

امام ابو داؤدؒ کا مرسل کے متعلق کلام کی مزید وضاحت

﴿امام ابو داؤدؒ کا مرسل کے متعلق کلام کی مزید وضاحت﴾

 

ہم نے مرسل روایت کے حکم میں ایک امام ابو داؤدؒ کا اصول و کلام واضع کیا تھا، آج اس کی مزید شرح بیان کرنے کا جی چاہا کہ کوئی کم عقل اور جاہل شخص اٹھ کر امیر المومنین فی العلوم دین امام محمد بن ادریس الشافعی الہاشمیؒ پہ طعن نہ شروع کردے کہ انہوں نے اجماع کے برخلاف بدعت جاری کردی جیسا کہ بعض جہلاء متقدمین و متاخرین کی تفریق کرکے پھر متاخرین آئمہ کرام پہ طعن کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جو بھی ایسا اشکال رکھے، سمجھ جائیں کہ وہ انسان بلکل جاہل اور عقل و فہم سے سراسر پیدل ہے۔ امام شافعیؒ سے پہلے بھی آئمہ کرام مرسل روایت کو مطلقا رد بھی کرتے تھے اور قبول بھی کرتے تھے۔ امام ابو داؤدؒ کا جو کلام ہے اس میں یہ بات واضع ہوتی ہے کہ امام شافعیؒ سے قبل آئمہ کرام مرسل کو قبول تو کرلیتے تھے مگر انہوں نے اس کے اصول و قوائد کو لیکر کوئی خاص کلام نہیں کیا، امام شافعیؒ آئے تو انہوں نے اس میں کلام کرکے آئمہ محدثین کے قبول کرنے کی وضاحت کی کہ کن شرائط کے ساتھ مرسل کو قبول کیا جائے گا اور اگر یہ شرائط نہ ہوں تو پھر مرسل رد ہوگی۔

 

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث السجستانیؒ (المتوفی 275ھ) اپنی سنن کے حوالے سے اپنے اصول الحدیث کے رسالے میں لکھتے ہیں:

المرسل والاحتجاج به

وأما ‌المراسيل فقد كان يحتج بها العلماء فيما مضى مثل سفيان الثوري ومالك بن أنس والأوزاعي حتى جاء الشافعي فتكلم فيها وتابعه على ذلك أحمد بن حنبل وغيره رضوان الله عليهم

فإذا لم يكن مسند غير المراسيل ولم يوجد المسند فالمرسل يحتج به وليس هو مثل المتصل في القوة

مرسل اور اس سے احتجاج:

اور جہاں تک مراسیل کا تعلق ہے تو پہلے زمانے میں علماء اس سے احتجاج کرتے تھے مثلا: امام سفیان الثوریؒ، امام مالک بن انسؒ، اور امام اوزاعیؒ۔ یہاں تک کہ امام شافعیؒ آئے تو انہوں نے اس میں کلام کیا اور پھر اس میں امام احمد بن حنبلؒ وغیرہ نے انکی پیروی کی۔ اللہ ان سب سے راضی ہو۔ (آمین)

اگر مراسیل کے علاوہ کوئی مسند نہ ہو اور کوئی مسند نہ مل سکے تو  مرسل سے احتجاج کیا جاسکتا ہے اور وہ قوت میں متصل کے مثل نہیں ہوگی۔

(رسالة أبي داود إلى أهل مكة: صفحہ 24)

 

لہزا امام شمس الدین ابو الخیر محمد بن عبد الرحمن السخاویؒ (المتوفی 902ھ) اسکی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ثم إن ما أشعر به كلام أبي داود في كون ‌الشافعي أول من ترك الاحتجاج به - ليس على ظاهره، بل هو قول ابن مهدي، ويحيى القطان، وغير واحد ممن قبل ‌الشافعي، ويمكن أن ‌اختصاص ‌الشافعي لمزيد التحقيق فيه

 

پھر یہکہ جو امام ابو داؤدؒ کے کلام سے محسوس ہوتا ہے کہ امام شافعیؒ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس (مرسل) سے احتجاج کرنا ترک کیا، یہ ظاہر پہ نہیں ہے، بلکہ یہ قول امام ابن مہدیؒ اور امام یحیی القطانؒ کا اور امام شافعیؒ سے پہلے کے کئی لوگوں کا ہے، اور ممکن ہے کہ اس میں مزید تحقیق کی وجہ سے امام شافعیؒ کی خصوصیت ہو۔

(فتح المغيث بشرح ألفية الحديث: جلد 1 صفحہ 179)

 

لہزا معلوم ہوا کہ امام شافعیؒ نے اس باب میں اپنے سے قدیم تمام آئمہ سے زیادہ تحقیق کرکے اس میں اس شاندار خصوصیت کے ساتھ کلام کیا کہ انکا کلام ہی اس باب میں حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ بھی نہیں کہ امام شافعیؒ نے مطلقا اپنے سے پہلے آئمہ کی مخالفت کی ہے بلکہ ان سے پہلے عمومی عمل مرسل کو قبول کرنے کا تھا اور آئمہ کے ایک گروہ کا قول مرسل کو رد کرنے کا بھی تھا۔ امام شافعیؒ نے دونو طرح کے اقوال کے درمیان خصوصیت سے تحقیقی کلام کرکے اسے مدون کردیا۔ اور وہی آئمہ محدثین کا اصول قرار پایا۔ لہزا وہی بات واضع ہوئی جو ہم نے اپنی پچھلی تحریر میں کی تھی کہ بعض اوقات متاخرین آئمہ کرام اپنی تحقیق کے چلتے اپنے سے متقدم آئمہ کرام پہ برتری لے جاسکتے ہیں اور اس فن میں مزید آسانی و بہتری لا سکتے ہیں۔

هذا ما عندي۔ والله اعلم

والسلام: شہزاد احمد آرائیں