-->

مولا علی المرتضیؑ کی سبقت والی روایت پہ ایک ناصبی خائن کا تعاقب

 

)مولا علی المرتضیؑ کی سبقت والی روایت پہ ایک ناصبی خائن کا تعاقب(

 

امام محمد بن عمرو البختری الرزازؒ (المتوفی 339ھ) فرماتے ہیں:

حدثنا محمد بن عمرو، قال: حدثنا محمد بن عبد الملك الدقيقي، قال: حدثنا يزيد بن هارون، قال: أخبرنا فطر، قال: سمعت أبا الطفيل يقول: قال بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: لقد كان لعلي بن أبي طالب من السوابق ما لو أن سابقة منها بين الخلائق لوسعتهم خيرا

سیدنا ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ کرام کہتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابی طالبؑ کے پاس ایسی سبقتیں ہیں جن میں سے ایک سبقت بھی مخلوق کے درمیان تقسیم کی جائے تو وہ ان سب کی خیر کیلیے وسیع ہوجائے۔

)مجموع فيه مصنفات أبي جعفر ابن البختري: صفحہ 197 رقم 166، وسندہ صحیح(

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم اس موقوف حدیث مبارکہ پہ دو تحاریر لکھ چکے ہیں، پچھلی تحریر میں ہم نے اسکے راوی فطر بن خلیفہ پہ کتب رجال سے تمام جرح و تعدیل کے اقوال نقل کیے تھے، اور یہ ثابت کیا تھا کہ یہ راوی ثقہ صدوق ہے، اس پہ کوئی بھی پختہ اور معتبر جرح موجود ہی نہیں ہے۔ سب سے پہلے میں یاددہانی کیلیے مختصرا توثیق اور جرح کرنے والے آئمہ کو الگ الگ کرکے لکھ دیتا ہوں، تاکہ یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ کتنے آئمہ توثیق کررہے ہیں اور کتنے آئمہ جرح:

 

توثیق کرنے والے آئمہ:

1۔ امام ابن سعد: ثقہ ان شاء اللہ

)الطبقات الكبرى - ط العلمية: جلد 6 صفحہ 344 رقم 2614(

2۔ امام یحیی بن معین: ثقہ

)تاريخ ابن معين - رواية الدوري: جلد 3 صفحہ 267 رقم 1254(

3۔ امام احمد بن صالح العجلی: ثقہ حسن الحدیث

)الثقات للعجلي ت البستوي: جلد 2 صفحہ 208 رقم 1489(

4۔ امام احمد بن حنبل: ثقہ صالح الحدیث

5۔ امام یحیی بن سعید القطان: ثقہ

6۔ امام ابو حاتم الرازی: صالح يحيى القطان يرضاه ويحسن القول فيه ويحدث عنه

)الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: جلد 7 صفحہ 90 رقم 512(

7۔ امام ابن حبان: ثقہ

)الثقات لابن حبان: جلد 5 صفحہ 300(

8۔ امام ابن عدی: وهو متماسك  وأرجو أنه لا بأس به، وهو ممن يكتب حديثه

)الكامل في ضعفاء الرجال: جلد 7 صفحہ 145 رقم 1576(

9۔ امام ذھبی: الشيخ العالم المحدث الصدوق، وحديثه من قبيل الحسن، ورمرۃ: ثقہ

(ديوان الضعفاء: صفحہ 321 رقم 3395)

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة: جلد 7 صفحہ 30 رقم 14)

10۔ امام الساجی: صدوق ثقہ

11۔ امام ابو نعیم: ثقہ ثبت فی الحدیث

(تهذيب التهذيب: جلد 8 صفحہ 300 رقم 550)

12۔ امام دارقطنی: ثقہ

(فتح الباري لابن حجر: جلد 1 صفحہ 435)

13۔ امام ابن حجر عسقلانی: صدوق

(تقريب التهذيب: صفحہ 448 رقم 5441)

14۔ امام ترمذی: حدیث صحیح

(جامع الترمذی: رقم 2843)

15۔ امام عبد اللہ ابن داؤد: اوثق اهل كوفه

16۔ امام ابن نمیر: حافظ كيس

(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق: جلد 2 صفحہ 798)

17۔ امام نسائی: حديث في نفسه صحيح

(السنن الكبرى - النسائي - ط الرسالة: جلد 1 صفحه 459 رقم 958)

ليس به بأس وقال في موضع آخر: ثقة، حافظ، كيس.

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال: جلد 23 صفحہ 312 رقم 4773)

18۔ امام ابن خزيمه: اخرجه احاديث في الصحيح

(صحيح ابن خزيمة: رقم 132، ورقم 1507، ورقم 2560)

19۔ امام ابو عوانہ: اخرجہ احادیث فی المستخرج علی شرائط امام مسلم

(مستخرج أبي عوانة - ط الجامعة الإسلامية: جلد 15 صفحه 304 رقم 7729، جلد 20 صفحه 200 رقم 11574)

20۔ امام ابو عبد الله الحاكم: قال حديث صحيح علي شرط شيخين، ولم يخرجاه، وقال الذهبي في التلخيص: علي شرط بخاري و مسلم

(المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية: رقم 4621)

21۔ امام هيثمی: ‌فطر ‌بن ‌خليفة وهو ثقة، وفيه كلام لا يضر

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: جلد 5 صفحہ 70 رقم 8187)

22۔ امام ابو الحسن ابن القطان: ثقہ

(بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام: جلد 4 صفحہ 424)

23۔ امام جمال الدین ابن المنظور: محدث

(لسان العرب: جلد 5 صفحہ 59)

24۔ امام ابن الملقن: صدوق

(البدر المنير: 2 صفحہ 119)

25۔ امام احمد بن ابی بکر البوصیری: اسنادہ صحیح

(إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة: جلد 5 صفحہ 394 رقم 4903)

 

جرح کرنے والے آئمہ جنکو ہمارے مخالف نے دلیل بنایا ہے:

1۔ ابو اسحاق الجوزجانی:  زائغ غير ثقة

(أحوال الرجال: صفحہ 95 رقم 72)

2۔ ابو بکر بن عیاش: ما تركت الرواية عن فطر، إلا بسوء مذهبه.

(الضعفاء الكبير للعقيلي: جلد 3 صفحہ 464 رقم 1521)

3۔ احمد بن یونس:  تركته عمدا، وكان يتشيع، وكنت أمر به بالكناسة في أصحاب الطعام، وكان أعرج، فأمر وأدعه مثل الكلب.

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة: جلد 7 صفحہ 30 رقم 14)

4۔ امام دارقطنی: زائغ لم يحتج به

(سؤالات الحاكم للدارقطني: صفحه 264 رقم 454)

 

انکی جانب سے کل چار (4) کل درست جروحات تھی جس کو ہمارے مخالف نے دلیل بنا کر پچیس (25) آئمہ کرام کی عمدہ اور پختہ توثیق کو رد کردیا۔ اب ہم موصوف کی پہلی اور دوسری تحریر میں واقعہ کذب بیاںیاں اور کلابازیاں سامنے رکھتے ہیں:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناصبی موصوف اپنی پہلی تحریر میں اس روایت کے متن پہ اعتراض کرکے کہتے ہیں:

انتباہ! بڑی بریکٹ میں شامل تمام الفاظ و جملے ناصبی موصوف کے ہیں جنہیں نقل کررہا ہوں۔

]یہ روایت صاف صاف بتا رہی ہے کہ یہ ایک رافضی کی تیار کردہ ہے![

 پھر آگے لکھتا ہے کہ:

]اس روایت کی سند میں ایک رافضی راوی فطر بن خلیفہ ہے[

موصوف یہاں فطر بن خلیفہ پہ روایت کو گھڑنے کی خود ساختہ جرح کرتے ہیں، ہم جب رد کرتے ہیں اور فطر بن خلیفہ کا دفاع کرتے ہیں تو ناصبی موصوف اپنے پہلے جھوٹ سے مکر کر فورا کلابازی کھاتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم نے اسکے صدوق ہونے کا انکار نہیں کیا!

اب دیمک موصوف کی عقل اور حافظہ دونو زائل ہوچکے ہیں کہ خود اسے نہیں معلوم کہ اس نے اپنی پچھلی پوسٹ میں دعوی کیا کیا ہوا ہے۔ موصوف پہلی تحریر میں فطر بن خلیفہ پہ روایت کے گھڑنے کا الزام لگا رہا ہے، جب ہم نے اس پہ آئمہ محدثین کے حوالے سے تراجم پیش کرکے اسکا رد کیا تو موصوف کلابازی کھاتے ہوئے اسکے صدوق ہونے کا اعتراف کرکے خود کو خود ہی کذاب ثابت کررہے ہیں۔ یاں تو موصوف نے پہلے اپنا دعوی جھوٹا بنایا تھا یاں بعد میں تقیہ کررہا ہے۔

 

اسکے بعد دیمک موصوف دعوی پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فطر بن خلیفہ راوی رافضی تھا، مزید کہتا ہے کہ ایسے رافضی راوی کی روایت نہ تو اسکے مذہب میں قبول ہوگی اور ناہی فضائل اہل بیت میں، کیونکہ یہ متن میں تدلیس کرتے ہیں اور الفاظوں کو تبدیل دیتے ہیں تاکہ اپنی ثقاہت قائم رکھ سکیں۔

 

اس دیمک زدہ کا دجل و فریب دیکھیں کہ اوپر موصوف اپنے سابقہ بیان سے کلابازی کھا کر فطر بن خلیفہ کو صدوق مان چکا ہے اور اب نیچے اس پہ متن میں تدلیس کا الزام لگانے کے ساتھ ساتھ روایات میں تحریف کرنے کا الزام بھی لگا رہا ہے، اگر یہ سچا ہے تو پھر فطر بن خلیفہ کذاب ہوا ناکہ ثقہ و صدوق، کیونکہ ايسا راوی تو پھر کذاب ہوا کیونکہ یہ راوی سماع کی تصریح بھی کررہا ہے اور مدلس بھی نہیں ہے اور متن بھی بدل رہا ہے تو پھر تو یہ ہوا کہ یہ کذاب ہے، کیونکہ اگر یہ سند میں کسی کو گرا رہا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اس ضعیف و کذاب راوی کے الفاظ سے یہ تدلیس کررہا ہے مگر جب خود ہی سماع کی تصریح کردے تو پھر یہ صدوق کسطرح ہوا؟

 

جيسا کہ امام ذھبیؒ (المتوفی 748ھ) مدلس راوی کی تعریف میں لکھتے ہیں:

ما رواه الرجل عن آخر، ولم يسمعه منه، أو لم يدركه. فإن صرح بالاتصال وقال: "حدثنا"، فهذا كذاب

جو شخص دوسرے سے روایت کرے اور اس نے اس سے نہ سنا ہو اور ناہی اسکا ادراک کیا ہو۔ تو اگر وہ صراحت سے اتصال کرے اور کہے "حدثنا" اس نے ہمیں بتایا تو وہ کذاب یعنی جھوٹا ہے۔

(الموقظة - ت أبي غدة: صفحہ 47)

 

اسی طرح امام ابو المظفر السمعانیؒ (المتوفی 489ھ) لکھتے ہیں:

وأما من ‌يدلس فى ‌المتون فهذا مطرح الحديث مجروح العدالة وهو ممن يحرف الكلم عن مواضعه وأن كان ملحقا بالكذابين ولم يقبل حديثه

 

اور جہاں تک متون میں تدلیس کرنے کا تعلق ہے تو یہ حدیث کو مطروح اور عدالت کو مجروح کردیتا ہے، اور یہ ان لوگوں میں سے ہے جو کلام کو اسکی جگہ سے تحریف کردیتے ہیں، اور وہ کذابین سے ملحق ہوتا ہے اور اسکی حدیث قبول نہیں کی جاتی۔

(قواطع الأدلة في الأصول: جلد 1 صفحہ 349)

لہزا معلوم ہوا کہ متن میں تدلیس کرنے والے راوی کی عدالت مجروح ہوتی ہے اور وہ کذاب ہوتا ہے،

 

اب یہاں یہ منافق خود جھوٹ بول رہے ہیں اور اپنی باتوں کو گھما پھرا عوام کو بےوقوف بنا رہے ہیں۔ نہ تو یہ راوی مدلس ہے کہ تدلیس کرے یا متن میں تدلیس کرے، نہ ہی کبھی کسی آئمہ نے ان پہ تدلیس کی جرح کی ہے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک راوی جس پہ یہ تدلیس المتن کا الزام لگا رہے ہیں تمام کے تامام آئمہ جرح و تعدیل و آئمہ علل اس سے قطعی طور پہ جاہل رہے اور ناہی کبھی کسی نے اسے رافضی قرار دیا ہے۔ یہ سب اسکی خود ساختہ باتیں ہیں عوام کو بیوقوف بنانے کیلیے۔ کیونکہ اگر یہ راوی متن میں تدلیس کرتا ہوتا تو کبھی اتنے بڑے اور اتنے کثیر آئمہ اسکو ثقہ صدوق قرار نہ دیتے بلکہ کذاب قرار دیتے۔ جیسا کہ یہ بغض اہل بیت میں مبتلا شخص من گھڑت تہمت لگا رہا ہے۔

 

اسکے بعد موصوف ناصبی امام احمد بن حنبلؒ کے قول کو یہ سخت خشبی تھا کا غلط استعمال کرتا ہے۔

موصوف کی پہلی تحریر دیکھیں تو موصوف کو خشبی کی الف ب تک معلوم نہیں تھی، بلکہ اس نے تو خشبی کا ترجمہ فرقہ پرست کردیا تھا:

]لیکن یہ انہتاء پسند فرقے سے تھا[

دوسری تحریر میں ہم سے اس خشبی کا مفہوم معلوم ہونے کے بعد یہ منافق کلابازی کھا گیا حالانکہ اس نے خشبی کا زکر تک اپنے ترجمے میں نہیں کیا تھا۔

اب موصوف نے خشبی گروہ کو بھی رافضی قرار دینے کیلیے امام دارقطنیؒ کا قول نقل کردیا اور وہ بھی آدھا ادھورا قول تحریف کرکے، امام دارقطنیؒ کا مکمل کلام ہم آگے نقل کررہے ہیں، اور خود امام احمد بن حنبلؒ نے خشبی کا مفہوم واضع کیا ہوا تھا وہ اس نے حجت نہیں بنایا اور انکے قول کو ترک کرکے امام دارقطنی کے قول کو آدھا نقل پکڑ کر دلیل بنا لیا؟؟

 

امام عبد الله بن احمد بن حنبلؒ اپنے والد امام احمد بن حنبلؒ سے سوال کرتے ہیں کہ:

سألت أبي عن ‌فطر ‌بن ‌خليفة فقال ثقة صالح الحديث حديثه حديث رجل كيس إلا أنه يتشيع

میں نے اپنے والد سے فطر بن خلیفہ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ثقہ ہے، حدیث میں صالح ہے، اسکی حدیث دانشمند شخص کی حدیث ہے، سوائے اس کے کہ وہ شیعہ ہے۔

(العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله: جلد 1 صفحہ 443 رقم 993)

 

 یعنی اس کے لیے امام احمد بن حنبلؒ کا خشبی کہنا تو حجت ہے مگر امام احمد بن حنبلؒ کا اس خشبی کو شیعہ کہنا حجت نہیں، واہ دوغلا معیار ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ کے اس راوی کو خشبی کہنے کا مفہوم امام دارقطنی سے لینا ہے؟

 

حالانکہ خشبی کن کو کہا جاتا تھا، آئیں ہم آئمہ کے کلام سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں:

1۔ امام یحیی بن معینؒ کا قول:

امام ابن عدی الجرجانیؒ لکھتے ہیں:

حدثنا محمد بن علي المروزي، حدثنا عثمان بن سعيد، قلت ليحيى بن معين: الحارث بن حصيرة ما حاله قال ‌خشبي ثقة ينسبون إلى خشبة زيد بن علي لما صلب عليها

 

امام عثمان بن سعید الدارمیؒ نے امام یحیی بن معینؒ سے کہا: حارث بن حصیرہ کے کیا حالات ہیں؟ انہوں نے کہا: خشبی ثقہ ہیں، انکی نسبت امام زید بن علیؓ کے تختے کی طرف ہے جس پہ انکو مصلوب کیا گیا۔

(الكامل في ضعفاء الرجال: جلد 2 صفحه 452)

 

2۔ امام احمد بن یحیی البلاذریؒ (المتوفی 279ھ) لکھتے ہیں:

وكان أصحاب المختار يسمون ‌الخشبية، لأن أكثرهم كانوا يقاتلون بالخشب، ويقال إنهم سموا ‌الخشبية لأن الذين وجههم المختار إلى مكة لنصرة ابن الحنفية أخذوا بأيديهم الخشب الذي كان ابن الزبير جمعه ليحرق به ابن الحنفية وأصحابه فيما زعم، ويقال بل كرهوا دخول الحرم بسيوف مشهورة فدخلوه ومعهم الخشب ولم يسلوا سيوفهم من أغمادها

 

اور مختار کے ساتھی خشبیہ کہلاتے تھے، کیونکہ ان میں سے اکثر لکڑی سے لڑتے تھے، اور کہا جاتا ہے کہ انہیں خشبیہ اس وجہ سے کہا گیا کہ انہیں مختار نے مکہ امام محمد بن حنفیہؓ کی مدد کیلیے بھیجا تھا، انہوں نے وہ لکڑیاں اپنے ہاتھوں میں لے لی جنہیں ابن زبیر نے محمد بن حنفیہؒ اور انکے ساتھیوں کو جلانے کیلیے جمع کیا تھا، جیسا کہ اسکا دعوی تھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ وہ حرم میں مشہور تلواروں کو لیکر داخل ہونے کو ناپسند کرتے تھے اس لیے وہ لکڑیاں لیکر داخل ہوئے اور انہوں نے اپنی تلواروں کو انکی نیاموں سے نہیں نکالا۔

(أنساب الأشراف للبلاذري: جلد 6 صفحہ 397)

 

3۔ امام ابن قتیبہ الدینوری (المتوفی 276ھ) لکھتے ہیں:

‌‌‌الخشبيّة:

من الرافضة. كان «إبراهيم بن الأشتر» لقي «عبيد الله بن زياد» وأكثر أصحاب «إبراهيم» معهم الخشب، فسموا: ‌الخشبية

 

روافض میں سے ہیں، ابراہیم بن الاشتر عبید اللہ بن زیاد کے آمنے سامنے آئے اور ابراہیم کے اکثر ساتھیوں کے پاس لکڑیاں تھی، تو انہیں الخشبیہ کا نام دیا گیا۔

(المعارف: جلد 1 صفحہ 622)

 

ابن قتيبه كے رافضی کہنے کے قول سے دھوکہ نہ کھائیں، کیونکہ اس نے تو صحابی رسول اللہ ﷺ سیدنا ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کو بھی غالی رافضی قرار دیا ہوا ہے:

أسماء الغالية

‌‌من الرافضة

أبو ‌الطّفيل:

صاحب راية «المختار» ، وكان آخر من رأى رسول الله- صلّى الله عليه وسلم- موتا

 

روافض میں غالیوں کے نام: ابو الطفیل، مختار کے علمدار، اور یہ رسول اللہ ﷺ کا دیدار کرنے والوں میں سب سے آخر میں فوت ہوئے۔

(المعارف: جلد 1 صفحہ 624)

 

اس سے اندازہ لگا لیں کہ یہ لوگ رافضی رافضی کی جرح کرنے میں کتنے متشدد تھے کہ ان سے صحابی رسول اللہ ﷺ بھی محفوظ نہیں رہ سکے۔ خیر

 

4۔ امام ابن طاہر المقدسیؒ (المتوفی نحو 355ھ):

وأما ‌الخشبية فإنهم أصحاب إبراهيم بن مالك الأشتر قتلوا عبيد الله بن زياد وكان عامة سلاحهم ذلك اليوم الخشب

 

اور جہاں تک خشبیہ کا تعلق ہے اور وہ ابراہیم بن مالک اشتر کے ساتھی تھے، جنہوں نے عبید اللہ بن زیاد کے خلاف قتال کیا تھا اور اس دن انکا سب سے بڑا ہتھیار لکڑیاں تھی۔

(البدء والتاريخ: جلد 5 صفحه 133)

 

5۔ اسی طرح امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی 852ھ) لکھتے ہیں:

قلت كان ابن الزبير قد دعا محمد بن الحنفية إلى بيعته فأبى فحصره في الشعب وأخافه هو ومن معه مدة فبلغ ذلك المختار بن أبي عبيد وهو على الكوفة فأرسل إليه جيشا مع أبي عبد الله الجدلي إلى مكة فاخرجوا محمد بن الحنفية من محبسه وكفهم محمد عن القتال في الحرم فمن هنا أخذوا على أبي عبد الله الجدلي وعلى أبي الطفيل أيضا لأنه كان في ذلك الجيش ولا يقدح ذلك فيهما إن شاء الله تعالى

 

میں کہتا ہوں کہ ابن زبیر نے محمد بن حنفیہ کو بیعت کی دعوت دی تو انہوں نے انکار کردیا اس لیے انہیں انکے لوگوں تک محصور کردیا گیا اور اسکے ساتھ انہیں اور انکے ساتھیوں کو کچھ وقت کیلیے خوفزدہ بھی کیا۔ تو اسکی خبر مختار بن ابی عبید تک پہنچی اور وہ کوفے میں تھا چناچہ اس نے انکی جانب ابی عبد اللہ الجدلی کے ساتھ ایک لشکر مکہ بھیجا، تو انہوں نے محمد بن حنفیہؒ کو انکی قید سےآزاد کروالیا، اور محمد (بن حنفیہ) نے انہیں حرم میں قتال سے روک دیا، یہاں انہوں نے عبد اللہ الجدلی اور ابو الطفیلؓ سے بھی اخذ کیا کیونکہ وہ بھی اس لشکر میں شامل تھے، اور اس معاملے میں ان دونو پہ کوئی تنقید نہیں کی جاسکتی، ان شاء اللہ تعالی۔

(تهذيب التهذيب: جلد 12 صفحہ 149)

 

طوالت کے پیش نظر اتنا کافی ہے!

معلوم ہوا کہ خشبیہ وہ گروہ تھا جنہوں نے سیدنا امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے والے یزید ملعون کے گورنر عبید اللہ بن زیاد ملعون سے قتال کیا تھا، اور یہی وہ گروہ تھا جس نے امام محمد بن حنفیہؒ کے دفاع میں بھی خروج کیا اور انہوں نے ہی امام زید بن علیؒ کے ساتھ بھی خروج کیا اور اس گروہ میں تو صحابی رسول سیدنا ابو طفیلؓ بھی شامل تھے تو کیا وہ بھی رافضی ہوئے؟ اور فطر بن خلیفہ تابعی سیدنا ابو طفیلؓ کے کاص شاگرد ہیں لہزا ان پہ بھی یہ خشبی کا کلام اسی نسبت کی وجہ سے کیا گیا ہے ناکہ رفض کی بنا پہ۔ لہزا نواصب کا یہ کہنا کہ یہ رافض کا انتہاء پسند گروہ تھا جو قتل و غارت کرتا تھا کتنا بڑا صریح بہتان ہے، ورنہ اسکی لپٹ میں خود صحابی رسول ﷺ بھی آتے ہیں۔ اگر امام حسینؑ کا بدلہ لینا انتہاء پسندی ہے، آئمہ اہل بیت کا دفاع اور انکا ساتھ دینا انتہاء پسندی ہے تو ایسی انتہاء پسندی ہر مسلمان میں ہونی چاہیے اور یہی ایمان کا تقاضا ہے۔ اگر فطر بن خلیفہؒ اس گروہ کے فرد ہیں تو انکے استاد صحابی رسول اللہ ﷺ بھی اسی گروہ کے فرد ہیں، لہزا دونو پہ ایک ہی حکم کا اطلاق ہوگا۔

 

 اب موصوف ملعون نے امام دارقطنیؒ کا کلام جو آدھا نقل کیا وہ پورا ملاحظہ کریں:

امام دارقطنیؒ لکھتے ہیں:

وأمَّا الخَشَبِي ، فهم صنف من الرافضة ، يعرف الواحد منهم بالخَشَبِيّ ، يُرْوى عن مَنْصُور بن المُعْتَمِر قال: إن كان من يحب عَلِيّ بن أبي طَالِب يقال له ‌خَشَبِي فاشهدوا أني ساجة

 

اور جہاں تک الخشبی کا تعلق ہے تو وہ روافض کی ایک قسم ہے، ان میں سے ایک کو خشبی کے نام سے جانا جاتا ہے، منصور بن المعتمرؒ (تابعی) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: اگر کوئی مولا علی بن ابی طالبؑ سے محبت کرتا ہے تو اسے خشبی کہا جاتا ہے لہزا گواہ رہو کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔

(المؤتلف والمختلف للدارقطني: جلد 2 صفحہ 959)

 

معلوم ہوا کہ مولا علی المرتضیؑ سے محبت کرنے والوں کو بھی خشبی کہا جاتا تھا، امام دارقطنیؒ نے جہاں خشبی گروہ کو روافض کی قسم بتایا وہاں ہی یہ قول ذکر کرکے یہ بھی بتا دیا کہ اگر کسی کو خشبی کہا جائے تو وہ ہمیشہ رافضی نہیں ہوتا بلکہ مولا علی المرتضیؑ سے محبت کرنے والا بھی ہو سکتا ہے۔ اور خود امام احمد بن حنبلؒ بھی اپنے خشبی کہنے کی وضاحت خود ہی شیعہ کہہ کرچکے ہیں کہ یہ مولا علی المرتضی سے محبت کرنے والے تھے۔

 

اسکے بعد یہ کذاب انسان مزید جھوٹ بولتے ہوئے کہتا ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ نے اسے خشبی اور غالی شیعہ قرار دیکر اسکی توثیق سے سکوت کرلیا تھا، جبکہ یہ بھی سراسر جھوٹ ہے، ہم اوپر اور پچھلی تحاریر میں امام احمد بن حنبلؒ سے واضع صراحت نقل کرچکے ہیں کہ انہوں نے اسے ثقہ اور اسکو احادیث میں صالح قرار دیا ہے اور انکو صرف شیعہ کہا:

حوالہ:

(العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله: جلد 1 صفحہ 443 رقم 993)

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: جلد 7 صفحہ 90 رقم 512)

 

پهر اسکے بعد ناصبی موصوف انہیں غالی شیعہ ثابت کرنے کیلیے امام ابن عدی سے احمد بن حمید کا سوال پیش کیا، ہم یہ کہتے ہیں کہ اس غالی شیعہ کے قول کو نقل کرنے میں احمد بن حمید کا تفرد ہے اور احمد بن حنبلؒ کے صاحبزادے کے ہوتے ہوئے انکا منفرد ہوکر غالی قول نقل کرنا محل نظر ہے۔ جیسا کہ امام خطیب البغدادیؒ انکا ترجمہ قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‌أحمد ‌بن ‌حميد أبو طالب ‌المشكاني، صاحب أبي عبد الله أحمد بن حنبل

روى عنه: أحمد مسائل تفرد بها، وكان أحمد يكرمه ويعظمه، حدث عنه أبو محمد فوران، وغيره

 

احمد بن حمید ابو طالب المشکانی، ابو عبد اللہ احمد بن حنبلؒ کے ساتھی۔

یہ احمد بن حنبل سے مسائل روایت کرتے ہیں جن میں انکا تفرد ہے۔ اور امام احمد بن حنبلؒ انکی تعظیم و تکریم کرتے تھے، ان سے ابو محمد فوران وغیرہ روایت کرتے ہیں۔

(تاريخ بغداد ت بشار: جلد 5 صفحہ 198 رقم 2061)

 

لہزا یہ بھی اسکی خطا ہے، اور اپنے سے قوی راوی عبد اللہ بن احمد بن حنبلؒ کے مقابلے میں یہ چیز محل نظر ہے۔

ویسے بھی غالی شیعہ اور رافضی ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

 

جیسا کہ امام شمس الدین الذھبیؒ لکھتے ہیں:

فلقائل أن يقول: كيف ساغ توثيق مبتدع وحد الثقة العدالة والإتقان؟ فكيف يكون عدلا من هو صاحب بدعة؟ وجوابه أن البدعة على ضربين: ‌فبدعة ‌صغرى ‌كغلو ‌التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق.

فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية، وهذه مفسدة بينة

 

کوئی کہنے والا یہ کہے کہ کسی بدعتی کی توثیق کسطرح  کی جاسکتی ہے جبکہ وہ ثقاہت، عدالت اور اتقان متحد ہو؟ اور وہ کس طرح عادل ہوسکتا ہے جو بدعت کا مالک ہے؟

اسکا جواب یہ ہے کہ بدعت دو طرح کی ہے: (1) بدعت صغری: جیسے کہ تشیع میں غلو، اور تشیع بغیر غلو کے اور بغیر تحریف کے، تو یہ کثیر تابعین اور تبع تابعین میں موجود تھی باوجود اس کے کہ وہ دیندار، پرہیزگار اور سچے تھے، اگر ان لوگوں کی احادیث کو رد کردیا جائے تو تمام اثار نبوت سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں گے اور یہ واضع فساد ہے۔

(ميزان الاعتدال: جلد 1 صفحه 5)

 

اسكے بعد امام ذهبی بدعت کبری میں رفض اور رفض میں غلو دونو کو الگ الگ کرکے بیان کرتے ہیں۔ طوالت کے پیش نظر ہم اسی پہ اکتفا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شیعہ ہونا یا غالی شیعہ ہونا کوئی قباحت کی بات نہیں ہے بلکہ تابعین اور تبع تابعین کی کثرت کا یہی مذہب تھا، جیسا کہ امام ذھبی نے اعتراف کرتے ہوئے کہا اور انکی احادیث کو رد کرنا تمام احادیث کو رد کرنے کے مترادف ہے، اور انکی احادیث کو رد کرنے والے خود گمراہ اور فسادی ہیں۔

 

موصوف نے امام ذھبیؒ کے ایک قول سے جو دلیل پکڑ کر ہمارا راستہ بند کرنے کی کوشش کی تھی ہم نے اس منافق انسان کا رد خود امام ذھبی سے اصول نقل کرکے کردیا ہے، امید ہے کہ اس کے بعد اس منافق انسان کی تکلیف کچھ کم ہوگی۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکے بعد وہ موصوف امام دارقطنیؒ کے کلام کو لیکر واویلا کرتے ہیں، اس جاہل مطلق انسان کو تو زائغ کا معنی تک معلوم نہیں تھا، اپنی پہلی تحریر میں زائغ کے لفظ کا ترجمہ تک نہ کرسکا تھا اور اس دوسری تحریر میں ہم سے سیکھ کر ہم پہ ہی بھونک رہا ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ امام دارقطنی سے ایک قول جہاں زائغ، لا یحتج بہ کا قول موجود ہے وہاں دوسری طرف امام دارقطنی نے اسے ثقہ بھی کہا، اور امام دارقطنیؒ کے ثقہ کہنے کا قوق امام ابن حجر عسقلانیؒ فتح الباری کے مقدمے میں قبول کرتے ہیں:

(فتح الباري لابن حجر: جلد 1 صفحہ 435)

 

لہزا ہم نے جو پچھلی تحریر میں امام دارقطنیؒ کے فطر بن خلیفہؒ کو بخاری و مسلم کے رجال کی کتاب میں ترجمہ کا زکر کیا تھا تو ہماری اس بات کو تقویت دیتی ہے، کہ امام دارقطنیؒ کے نزدیک یہ راوی ثقہ ہے۔ مزید یہکہ امام دارقطنیؒ کے علاوہ دیگر آئمہ نے بھی اس راوی کو امام بخاری و مسلم کی شرط کا قرار دیا ہے۔ جسکا ذکر اور حوالہ ہم اوپر نقل کرچکے ہیں، لہزا یہ راگ مخالفین کو کوئی فائدہ نہیں دیتا کہ امام بخاری نے اس سے متابعت میں روایت لی ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسکے بعد یہ ناصبی موصوف ہم پہ علم الحدیث کے کورے ہونے کی تہمت لگا رہا ہے جب کہ آپ پچھلی اور اس تحریر میں خود اس کی کلابازیوں اور اسکی تحریفات اور کذب بیانوں سے اسکے خود کے علم کا اندازہ باآسانی لگا سکتے ہیں۔

موصوف پھر فضول میں ہی ابی بکر بن عیاش کے اس راوی کے متعلق سوء مذہب کی جرح کا تعین دیگر آئمہ کے اقوال سے کرتا ہے، ان ناصبی موصوف کو تو چاہیے تھا کہ دیگر آئمہ سے ابی بکر بن عیاش کے اس راوی کے متعلق سوء مذہب کے قول کا تعین کرکے بتاتے کہ یہاں انکی یہ مراد ہے۔ تحریف کرکے لقمہ خود ڈالیں اور پھر اسکو آئمہ کی طرف منسوب کردیں۔ منافقت ہو تو ایسی ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکے بعد یہ موصوف پھر احمد بن یونس کے قول سے اسکو رافضی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، اپنی پہلی تحریر میں یہ موصوف احمد بن یونس کے قول کو ان کا رفض ثابت کرنے کیلیے دلیل بناتا ہے اور دوسری تحریر میں موصوف واضع صریح قول کہ احمد بن یونس نے انکو شیعت کی بنا پہ ترک کیا تھا پہ کذب بیانی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کوئی جاہل ہی رمی بالتشیع پہ اس قول کو محمول کرے گا۔

اگر یہ جاہل پن ہے تو احمد بن یونس خود جاہل جو صراحت کررہے کہ انکے نذدیک یہ شیعہ ہے اس وجہ سے انہوں نے اسے ترک کیا۔

وقال أحمد بن يونس: تركته عمدا، وكان يتشيع۔۔۔۔۔۔ الخ

 

احمد بن یونس کہتے ہیں کہ میں نے انہیں جان بوجھ کر ترک کیا، اور ان میں تشیع تھا۔

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة: جلد 7 صفحہ 30 رقم 14)

لہزا احمد بن یونس خود اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ انہوں نے اسے جان بوجھ کر کس وجہ سے ترک کیا اور انکی وجہ تشیع تھی، جسکا اقرار انہوں نے خود کیا ہے۔

اسکے بعد یہ ناصبی موصوف کہتے ہیں کہ احمد بن یونس نے انکو کتے سے ملاتے ہیں اور جان بوجھ کر ترک کرتے ہیں تو اسکا سبب وہی ہے جو ابو بکر بن عیاش نے بیان کیا۔

ابو بکر بن عیاش نے تو انکے برے مذہب کی وجہ سے ترک کیا تھا، اس برا مذہب کیا تھا اسکا انہوں نے کوئی زکر نہیں کیا، جبکہ احمد بن یونس خود اپنے ترک کی وضاحت کرتے ہیں انہوں نے تشیع کی وجہ سے ترک کیا۔

اب چونکہ ناصبی موصوف کے نزدیک ابی بکر بن عیاش اور احمد بن یونس کا ترک کا سبب ایک ہی ہے تو احمد بن یونس کے قول کے مطابق پھر فطر بن خلیفہ کو ان دونو کی جانب سے شیعت کی وجہ سے ترک کیا گیا ہے۔ ناصبی موصوف خود اپنی تاویل میں الٹا پھنس چکے ہیں، تحریف کرکے ادھورا قول نقل کرنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکے بعد یہ دیمک زدہ شخص ہم پہ تہمت لگاتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم نے صرف تضعیف کے اقوال نقل کیے اور توثیق کے اقوال چھپا لیے، جب کہ ہم خود اپنی تحریر میں اس بات کو بلکل واضع بیان کرچکے ہیں کہ بعض آئمہ نے اسکی معمولی سی توثیق بھی کی ہے جو اسے فائدہ نہیں دیتی اور وہ مرجوع ہے، راجع اسکا ضعیف ہونا ہی ہے۔ اس خائن نے ہماری بات کو چھپا کر ہم پہ تہمت لگا دی۔

خیر سب سے پهلے تو موصوف نے اس په جو توثيق کا قول نقل کیا وہ امام ذھبی کا لین کا قول نقل کیا، جبکہ خود امام ذھبیؒ اسے دوسری جگہ ضعفاء میں درج کررہے ہیں، ادھر ادھر بھاگم بھاگ خیانتیں کرنے کے بجائے یہ موصوف اسی جگہ رہ بات کریں تو امام ذھبیؒ کا درست حکم بھی معلوم ہوجائے گا:

 

 امام الذھبیؒ قطبہ بن العلاء کو ایک جگہ لین قرار دیتے ہیں:

(المقتنى في سرد الكنى: جلد 1 صفحہ 279 رقم 2718)

 

دوسری جگہ امام ذھبیؒ اسے ضعفاء میں درج کرتے ہیں اور صرف ضعف کے اقوال سے حجت پکڑتے ہیں:

(ديوان الضعفاء: صفحہ 327 رقم 3448)

 

ایک اور مرتبہ بھی امام ذھبیؒ اسی طرح ضعف کے اقوال سے حجت پکڑتے ہوئے اسے ضعفاء میں درج کرتے ہیں:

‌قطبة ‌بن ‌العلاء بن المنهال الغنوي عن الثوري ضعفه النسائي وقال أبو حاتم لا يحتج به

قطبہ بن العلاء بن المنھال الغنوی، روایت کرتے ہیں ثوری سے، انہیں امام نسائیؒ نے ضعیف قرار دیا اور امام ابو حاتم الرازیؒ نے کہ اس سے احتجاج نہیں کیا جائے گا۔

(المغني في الضعفاء: جلد 2 صفحہ 525 رقم 5052)

 

 اور قطبہ بن العلاء سے جسطرح کا قول یہ خائن لیے پھرتا ہے اسی طرح کا قول ایک اور مروی ہے: ملاحظہ کریں:

 

امام شمس الدین الذھبیؒ لکھتے ہیں:

فضيل بن عياض الزاهد، شيخ الحرم وأحد الاثبات، مجمع على ثقته وجلالته، ولا عبرة بما رواه أحمد بن أبي خيثمة، قال: سمعت ‌قطبة ‌بن ‌العلاء يقول: تركت حديث فضيل بن عياض، لانه روى أحاديث أذرى فيها على عثمان رضي الله عنه.

فمن قطبة! وما قطبة حتى يجرح، وهو هالك.

روى الفضيل رحمه الله ما سمع فكان ماذا؟ فالفضيل من مشايخ الإسلام والسلام.

مات سنة سبع وثمانين ومائة

فضیل بن عیاض الزاھد، حرم کے شیخ اور ثبت رواۃ میں سے ایک ہیں، انکی جلالت اور ثقاہت پہ اجماع ہے۔

اور انکے متعلق احمد بن ابی خیثمہ کی روایت معتبر نہیں ہے کہ وہ کہتے ہیں انہوں نے قطبہ بن العلاء کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں نے فضیل بن عیاض کی احادیث کو ترک کردیا کیونکہ اس سے ایسی احادیث مروی ہیں جن میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی تنقیص شامل ہے۔

تو اس میں قطبہ ہے، اور قطبہ حتی کہ وہ مجروح ہے اور وہ مہلک ہے۔

فضیل رحمہ اللہ نے جو سنا وہ روایت کردیا، تو کیا وہ ایسے تھے؟ بلکہ فضیل تو اسلام کے مشائخ میں سے ایک شیخ تھے۔

انکی وفات سن ایک سو ستاسی ہجری میں ہوئی ہے۔

(ميزان الاعتدال: جلد 3 صفحہ 361 رقم 6768)

 

معلوم ہوا کہ امام ذھبیؒ کے نزدیک یہ قطبہ بن العلاء اتنا مجروح اور مہلک راوی ہے کہ ان آئمہ اور رواۃ جنکی ثقاہت پہ اجماع ہے ان پہ یہ جھوٹی تہمتیں لگاتا تھا۔ اور یہی تہمت جو اس نے اجماع ثقہ متقن شیخ الاسلام پہ لگائی، بلکل وہی تہمت اس خبیث نے فطر بن خلیفہ رحمہ اللہ پہ بھی لگا دی۔

اس قسم کے رواۃ کی جرح یہ نواصب اپنے ماتھے پہ سجا کر خود کو محدث، عالم اور رجال کے حافظ کہتے پھرتے ہیں۔

اسکے بعد موصوف امام ابن ابی حاتم سے امام ابو حاتم الرازیؒ کا قول نقل کرتا ہے کہ انکے نزدیک اس میں خیر کے سوا کچھ بھی نہیں، جبکہ امام ذھبیؒ بھی امام ابو حاتم الرازیؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس سے احتجاج نہیں کیا جائے، حوالہ اوپر گذر چکا۔ لہزا یہ بھی بےفائدہ کلام ہوا۔ دوئم یہکہ یہ ناصبی موصوف آئمہ اور اسلام کے مشائخ پہ ایسے جھوٹی تہمتیں لگانے والے راوی پہ تو ادھر ادھر سے آدھے ادھورا اقوال نقل کرکے انکا دفاع کرنے کررہا ہے جبکہ ایک ثقہ راوی کے خلاف اسکو مرچی لگی ہوئی ہے کہ اس نے مولا علی المرتضی کی فضیلت کیوں بیان کردی! اس خبیث کی خباثت کا اس سے آپ باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں، مزید یہ اس ترجمے میں بھی تحریف کررہا ہے کہ اصل ترجمہ یوں ہے:

قال شيخ يكتب حديثه ولا يحتج به

انہوں نے کہا یہ شیخ ہے، اسکی حدیث کو لکھا جائے گا اور اس سے حجت نہیں لی جائے گی۔

یہاں موصوف ناصبی ترجمہ میں خیانت کرتے ہوئے شیخ کے آگے صدوق کا اضافہ کردیتا ہے۔ موصوف کو شاید تعدیل کے اقوال کی کمی ہوگئی تو اس نے اس طرح تحریفات کو مزید اگلے لیول پہ لیجانا شروع کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکے بعد موصوف جوزجانی کو جرح میں منفرد قرار نہیں دیتا، جبکہ وہ منفرد ہی ہے، اسکے علاوہ کسی نے بھی اسے غیر ثقہ قرار نہیں دیا، مزید اسکی خائن کی خباثت ملاحضہ کریں کہ ہم نے جب امام ابن حجر عسقلانیؒ سے جوزجانی ناصبی کی جرح کو فاسق قرار دیا تو موصوف نے الٹا اسے اپنے لیے دلیل بنا لیا کہ اس سے یہ مراد بھی ہے کہ روافض متن میں تدلیس کرکے متن کو بدل دیتے ہیں: اس خبیث کی اس چول کا رد ہم اوپر کرچکے ہیں کہ متن میں تدلیس کا سرے سے کوئی وجود نہیں ہے، یہ بریلوی کسی خیالی دنیا میں جی رہا ہے۔ دوسرا یہکہ امام ابن حجر عسقلانیؒ کا قول تو صرف جوزجانی جیسے ناصبی اور متعصب لوگوں کے متعلق تھا جو اپنے نفس کی بنا پہ دیگر رواۃ پہ جرح کرتے تھے، اس میں احادیث کے متن اور ان میں تدلیس کا تو دور دور تک نام نہیں تھا۔ جوزجانی ناصبی کا جروحات کرنا اور بات ہے اور شیعہ رواۃ کا احادیث بیان کرنا اور بات ہے۔ تروڑ مڑور کے جو مرضی بنوا لو ان بریلوی نواصب سے۔

 

جوزجانی کے دفاع میں اس نے کوئی دلیل پیش نہیں کہ بلکہ اپنے منافقت کا کھل کر اظہار کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکے بعد یہ ناصبی امام ابن عدیؒ کے کلام کو لیکر بکواس کرنا شروع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ امام ابن عدی کا منہج نہیں ہے بلکہ انہوں نے اسکی روایات کو صرف متابعت میں لینے کا زکر کیا ہے فی نفسی انکی مراد اسے ضعفاء میں کہنے کی ہے تو یہ اسکا جھوٹ ہے:

امام ابن عدیؒ سے اس نے کوئی دعوی پیش نہیں کیا، بلکہ ایک دوسرے کسی راوی پہ کلام کو اٹھا کر اسکو ادھر حجت بنا لیا ہے۔ یہ ناصبی بندر کی اولاد کی طرح ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر چھلانگے لگانے میں ہی ماہر ہیں، اگر اسطرح سے آئمه كے مناہج کا علم ہوجاتا تو پھر تو ہر کوئی اپنی مرضی سے آئمہ کے مناہج بناتا پھرے گا کہ کہیں سے کوئی ایک چیز پکڑ لی اور اسکو ہر جگہ لاگو کردیا اور منہج قرار دے دیا۔

امام ابن عدیؒ کا قول ایک بار پھر ملاحظہ کریں:

وفطر بن خليفة له أحاديث صالحة عند الكوفيين يروونها عنه في فضائل علي وغيره، وهو متماسك وأرجو أنه لا بأس به، وهو ممن يكتب حديثه

اور فطر بن خلیفہ، ان کے پاس صالح احادیث ہیں اہل کوفہ کیلیے جو انہوں نے فضائل سیدنا مولا علیؑ وغیرہ میں روایت کی ہیں، اور یہ مضبوط تھے اور میں امید کرتا ہوں کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے، اور وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنکی احادیث لکھی جاتی ہیں۔

(الكامل في ضعفاء الرجال: جلد 7 صفحہ 145 رقم 1576)

یہاں جب امام ابن عدی اسکی احادیث کو مولا علیؑ وغیرہ کے فضائل میں صالح قرار دے رہے ہیں، اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ مضبوط راوی ہیں انکے نزدیک اس راوی میں کوئی حرج نہیں اور پھر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ ان رواۃ میں سے ہیں جنکی احادیث لکھی جائے گی۔ تو صاف واضع ہورہا ہے کہ فطر بن خلیفہ ایسا راوی ہے جس سے حجت پکڑی جاتی ہے، امام ابن عدی کا متماسک کہنے سے یہی مراد ہے کہ اعلی درجے کا حسن الحدیث راوی ہے، اسی طرح انہوں نے یہ بتایا ہے کہ فطر بن خلیفہ ہر قسم کے کذب سے پاک ہے، یہ متروک نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہی وہ چیزیں ہیں جس پہ اس ناصبی کا دعوی تھا۔ امام ابن عدیؒ یہاں اسکو اہل کوفہ کے علاوہ دیگر میں کلی طور پہ متماسک کہہ رہے ہیں، یعنی دیگر کی روایات میں بھی یہ مضبوط راوی ہے اور اس سے حجت پکڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسکا سیاق اسکی وضاحت کررہا ہے۔ لہزا سیاق کو جھٹلا کر اپنا لقمہ ڈالنا ہی خیانت ہے۔

جو دلائل ان موصوف نے دیے ہیں وہاں امام ابن عدیؒ خود سیاق میں وضاحت کررہے ہیں کہ انکی روایات لکھی تو جائیں گی مگر ضعفاء میں۔ اسکے الٹ فطر بن خلیفہ کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ متماسک یعنی مضبوط راوی ہے، تو انہوں نے خود ہی بیان کردیا کہ اسکی روایات کس جگہ لکھی جائیں گی۔

یہاں یہ مراد لینا کہ انکے نزدیک یہ فطر بن خلیفہ ضعیف ہیں، انکی روایات متابعت میں لی جائیں گی سراسر جھوٹ ہے، مخالف نے جتنے دلائل بنائے ان میں کوئی ایک پہ منہج پہ دلالت نہیں کیا کیونکہ انکے سیاق میں خود امام ابن عدی انکے متعلق تفرد کی خود وضاحت کی ہوئی ہے۔ انکے لیے متماسک کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ یہ اس ناصبی کی خیانت ہے کہ ادھر ادھر سے چھلانگے لگا کر اپنا الو سیدھا کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکے بعد یہ ناصبی امام ابن حجر عسقلانیؒ کے قول کو غلط استعمال کرتا ہے، وهاں امام ابن حجر عسقلانیؒ کی مراد یہاں ان غالی روافض سے ہے جو بدعت مکفرہ کے مرتکب ہوئے ہیں، امام ابن حجر عسقلانیؒ دیگر کئی جگہوں اپنی تحاریر سے اس چیز کو واضع کرتے ہیں۔ مثلا:

امام ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں:

ثم ‌البدعة: وهي السبب التاسع من أسباب الطعن في الراوي: وهي

1 - إما أن تكون بمكفر:

- كأن يعتقد ما يستلزم الكفر.

2 - أو بمفسق.

فالأول: لا يقبل صاحبها الجمهور.

وقيل: يقبل مطلقا.

وقيل: إن كان لا يعتقد حل الكذب لنصرة مقالته قبل.

والتحقيق: أنه لا يرد كل مكفر ببدعة؛ لأن كل طائفة تدعي أن مخالفيها مبتدعة، وقد تبالغ فتكفر مخالفها، فلو أخذ ذلك على الإطلاق لاستلزم تكفير جميع الطوائف.

فالمعتمد أن الذي ترد روايته من أنكر أمرا متواترا من الشرع معلوما من الدين بالضرورة، وكذا من اعتقد عكسه، فأما من لم يكن بهذه الصفة وانضم إلى ذلك ضبطه لما يرويه، مع ورعه وتقواه، فلا مانع من قبوله

پھر بدعت: یہ راوی پہ طعن کی نویں وجہ ہے، اور وہ یہ کہ:

1۔ ایسی بدعت جس سے کفر لازم آتا ہے۔

2۔ ایسی بدعت جو کہ فاسق کر دے۔

پہلی قسم جو راوی کو کافر کر دیتی ہے اس پر جمہور کا اتفاق ہے کہ اسکی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسکی روایت کو بھی قبول کر لیا جائے گا اور اگر وہ اپنے مذہب کو تقویت پہنچانے کی غرض سے جھوٹ نہیں بولتا تو بھی اس کی بات کو قبول کیا جائے گا۔ تحقیق قول یہ ہے کہ ہر اس بدعتی راوی کی روایت کو ترک نہیں کیا جائے گا جسکی تکفیر اس کی بدعت کی وجہ سے لازم آتی ہے کیونکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہر گروہ دوسرے کو بدعتی کہتا ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے ایک دوسرے کی تکفیر کی جاتی ہے اور اگر علی الاطلاق اس قاعدے کو نافذ کر دیا جائے تو لازم آئے گا کہ تمام کے تمام لوگوں کی تکفیر کردیں بہر حال اعتماد اس میں یہ کہ اس کی تکفیر کی جائے جو کسی متواتر امر دین کا منکر ہو البتہ جو اس صفت کا حامل نہ ہو اور اسکا حافظہ بھی قوی ہو تو کوئی شے مانع نہیں کہ اسکی روایات کو قبول نہ کیا جائے۔

(نُزهة النظر في توضيح نخبة الفكَر في مصطلح أهل الأثر: صفحہ 122 و 123)

 

لہزا معلوم ہوا کہ امام ابن حجر عسقلانیؒ کے نزدیک صرف اس شخص کی تکفیر کی جائے گی جو کسی متواتر امر دین کا انکار کرے گا، اور جو متواتر امر دین کا انکار نہیں کرتا، تو اسکی روایت کو ہر صورت میں قبول کیا جائے گا۔ اور یہی منہج ہم نے امام الذھبیؒ سے بھی اوپر نقل کردیا ہے۔

امام ابن حجر عسقلانیؒ نے اپنے کلام کی اور اپنے اصول کی خود وضاحت کی ہوئی ہے، اسکو یوں استعمال ہی غلط ہے۔

 

امام ابن حجر عسقلانیؒ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

وأعلم أنه قد وقع من ‌جماعة ‌الطعن في جماعة بسبب اختلافهم في العقائد فينبغي التنبه لذلك وعدم الاعتداد به إلا بحق

یہ جان لو کہ ایک جماعت دوسری جماعت طعن کرتی ہے اسکے سبب کہ ان میں عقائد کا اختلاف ہوتا ہے لہذا یہ لازم ہے کہ ہم اس باب میں حق کو اختیار کریں۔

(فتح الباري لابن حجر: جلد 1 صفحہ 385)

 

لہزا معلوم ہوا کہ مختلف جماعتیں ایک دوسرے پہ عقائد کے اختلاف کی وجہ سے طعن کرتی رہتی ہیں، جس سے ان پہ کوئی جرح واقع نہیں ہوتی، اس میں حق بات کو اختیار کرتے ہوئے ان میں اعتدال کو سامنے رکھنا چاہیے اور اختلاف کی وجہ سے کیے گئے طعن کو رد کرنا چاہیے۔ اور یہی چیز ہمارے زیر بحث راوی فطر بن خلیفہ کے متعلق واقع ہوئی ہے کہ انہیں ترک کرنے والوں کا ان سے عقائد کا اختلاف تھا، امام ابن حجر عسقلانیؒ کے اصول کے تحت ان کا یہ عمل حجت نہیں، امام ابن حجر نے اس چیز کو فتح الباری کے مقدمے میں حجت بنایا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخری چیز جو اس روایت کے متن پہ اعتراض کی ہے، تو اسکی عمدہ وضاحت اور مثالیں ہم اپنی پچھلی تحریر میں کرچکے ہی۔ مگر موصوف اتنے کند ذہن واقع ہوئے ہیں کہ انکو وہ سمجھ ہی نہیں آئی۔ واقعی بریلویت اور عقل دونو ایک دوسرے کے متضاد ہیں:

موصوف نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پیش کردہ دونو آیات میں لفظ العلمین مشترک ہے:

پہلی آیت:

وَ لَقَدِ اخۡتَرۡنٰہُمۡ عَلٰی عِلۡمٍ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۚ۳۲﴾

اورہم نے دانستہ طور پر بنی اسرائیل کو دنیا جہان والوں پر فوقیت دی۔

(سورۃ الدخان: آیت 32)

 

دوسری آیت:

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا ٭ۖ وَّ اٰتٰىکُمۡ مَّا لَمۡ یُؤۡتِ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۰﴾

اور یاد کرو موسیٰ ( علیہ السلام ) نے اپنی قوم سے کہا ، کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ تعالٰی کے اس احسان کا ذکر کرو کہ اس نے تم میں سے پیغمبر بناۓ اور تمہیں بادشاہ بنا دیا اور تمہیں وہ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا ۔

(سورۃ المائدہ: آیت 20)

 

اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ صرف اس زمانے میں برتری تھی، تو اس زمانے میں بنی اسرائیل کی برتری کیا انبیاء کرام پہ تھی؟ کیونکہ یہاں کوئی تفریق نہیں کی گئی۔ موصوف کے مطابق یہ انبیاء کی تنقیص ہونی چاہیے کہ عام بنی اسرائیل کی عوام کو تمام جہان والوں پہ فوقیت دے دی تو اس جہان میں انبیاء بھی موجود ہونگے اور فرشتے وغیرہ بھی۔ ایسا قیاس ہی عقل کے منافقی ہے جسطرح اس ناصبی کا اس موقوف حدیث پہ اعتراض عقل و علم سے عاری ہے۔ اگر مولا علی المرتضی کے متعلق سے مراد ازل سے لیکر ابد تک تمام مخلوق لینی ہے تو پھر الزامی طور پہ ہمارا جواب ہے کہ اس جاہل کو چاہیے کہ یہاں بنی اسرائیل سے بھی یہی مراد لے کیونکہ وہاں بھی العلمین سے مراد ابد سے لیکر تمام جہان والے ہیں اور ان میں انبیاء و رسل اور فرشتے سب آتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہی ہے کہ:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾

اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے۔

(سورۃ الانبیاء: آیت 107)

 

بریلویوں کے امام اعلی حضرت احمد رضا خان کہتے ہیں:

عالم ماسوائے اللہ کو کہتے ہیں جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں۔

(فتاوی رضویہ، رسالہ: تجلی الیقین، ۳۰ / ۱۴۱)

لہزا اسی چیز پہ پھر انکو چاہیے کہ بنی اسرائیل کو بھی اسی پہ قیاص کریں اور انہیں انبیاء اور رسل اور فرشتے سے بھی برتر سمجھیں۔

ایک عام بندہ بھی اس بات کو باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ جسطرح بنی اسرائیل کو ان کے دور میں انبیاء و رسل کے علاوہ عام انسانوں پہ برتری تھی، اسی طرح صحابہ اور بعد کے لوگوں میں مولا علی المرتضی کی ایک ایک سبقت و نیکی ایسی ہے کہ انہیں ان میں تقسیم کیا جائے تو وہ سب کیلیے خیر و برکت بن جائے گی۔ یہاں انبیاء و رسل تو مراد ہی نہیں ہیں کیونکہ انبیاء و رسل تو معصوم ہوتے ہیں اور وہ صحابہ کرامؓ کے زمانے سے پہلے گزر چکے اور فرشتے بھی مراد نہیں کیونکہ فرشتوں کے ساتھ نیکی و بدی وغیرہ کا معاملہ نہیں۔

لہزا جب یہ مان رہا ہے کہ بنی اسرائیل کے متعلق آیات ایک مخصوص مدت کیلیے ہیں تو پھر سیدنا مولا علی المرتضیؑ کے متعلق بھی صحابہ کا دعوی انکے مخصوص وقت میں ہے، اور انبیاء کرام اس سے پہلے گزر چکے لہزا ان کو اس میں قیاص کرکے اس حدیث کے متن پہ اعتراض کرنا اس جاہل کی منافقت ہے۔ جو بات ہم کہنا چاہ رہے تھے وہ اس نے خود اقرار کرکے یہ بتا دیا کہ سوائے ناصبیت کے اس خبیث انسان کو اور کوئی تکلیف نہیں ہے اور اس روایت کا متن بلکل پاک ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لہزا ثابت ہوا کہ اس حدیث مبارکہ پہ نواصب خائن قسم کے اعتراضات باطل ہیں، اس کے راوی فطر بن خلیفہ پہ جروحات مردود ہیں اور وہ بلکل ثقہ اور قابل اعتماد راوی ہیں، وہ رافضیت کے الزام سے بھی پاک و صاف ہیں، اگر ان پہ رافضیت کا الزام لگانا ہے تو پھر صحابی رسول اللہ ﷺ سیدنا ابو الطفیل عامر بن واثلہؓ پہ بھی وہی الزام لگائیں کیونکہ ایک تو وہ انکے استاد تھے اور دوسرا یہکہ اسی گروہ کے علمبردار بھی تھے جسکی طرف انکی نسبت کی گئی ہے۔ بہرحال خلاصہ کلام یہکہ نواصب کی تحریفات، انکی کذب بیانیاں اور انکا دجل و فریب ہم نے بلکل کھول کر واضع کردیا ہے اور اپنی حجت تمام کردی ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اہل بیت سے محبت کرنے والا اور انکا دفاع کرنے والا بنائے، اور ہمیں محب اہل بیت کے طور پہ موت عطا فرمائے اور اسی چیز پہ بروز قیامت کو اٹھائے۔ آمین ثم آمین۔

 

واسلام: شہزاد احمد آرائیں۔

پچھلی تحریرات : 

1۔ 

2۔